اردو

urdu

خالی عدالتیں: انصاف کی فراہمی میں تاخیر، عدلیہ میں 40 فیصد عہدے خالی

بھارت میں کروڑوں لوگ سالہا سال، جبکہ بعض دہائیوں سے عدالتوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔ ذیلی عدالتوں میں 3.8 کروڑ مقدمات التوا میں ہیں جبکہ ملک کے 25 ہائی کورٹس میں 57 لاکھ سے زائد مقدمات حل طلب ہیں۔ یہ تازہ اعداد و شمار حکومت نے حال ہی میں پارلیمنٹ کو فراہم کیے ہیں۔ پڑھیں ای ٹی وی بھارت کے سینئر صحافی کرشنا آنند ترپاٹھی کی یہ خاص رپورٹ۔

By

Published : Mar 21, 2021, 12:39 PM IST

Published : Mar 21, 2021, 12:39 PM IST

40 percent posts in higher judiciary remain vacant
انصاف کی فراہمی میں تاخیر، عدلیہ میں 40 فیصد عہدے خالی

انصاف میں تاخیر کی کئی وجوہات ہیں لیکن عدالتوں میں ججوں کی چالیس فیصد اسامیوں کا خالی ہونا انصاف میں تاخیر کی سب بڑی وجہ ہے۔ ملک بھر کی نچلی عدالتوں میں ججوں کی 20 فیصد اسامیاں خالی ہیں۔

بھارت میں نظام انصاف، جو کووِڈ-19 کی وبا کی وجہ سے رک گیا ہے، ججوں کی قلت سے جھوجھ رہا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ اور ملک کی 25 ہائی کورٹس میں ججوں کے 1080 منظور شدہ عہدوں میں سے 441 عہدے یعنی چالیس فیصد خالی ہیں۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کے 661 خالی عہدوں میں سے 255 یعنی لگ بھگ چالیس فیصد کو پُر کیا گیا لیکن یہ ساری تقرریاں گزشتہ تین سال کے دوران بالخصوص سال 2018ء اور 2019ء میں عمل میں لائی گئیں۔ سپریم کورٹ اور ملک کے 10 ہائی کورٹس میں سال 2020ء میں کسی جج کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ تاہم گزشتہ سال ملک کے 15 ہائی کورٹس میں ججوں کی کچھ تقرریاں عمل میں لائی گئیں۔

سپریم کورٹ میں صورتحال قدرے بہتر ہے کیونکہ سال 2020ء میں یہاں کل 34 ججوں کے عہدوں میں سے صرف چار خالی تھے تاہم موجودہ تیس ججوں میں سے نصف ججوں کی تقرری سال 2018ء اور سال 2019ء میں عمل میں لائی گئی۔

ہائی کورٹس میں ججوں کی 40 فیصد اسامیاں خالی

ملک کے 25 ہائی کورٹس میں مجموعی طور پر 1046 ججوں کے عہدے موجود ہیں جو 1.35کروڑ لوگوں کو انصاف فراہم کرنے پر مامور ہیں لیکن ان میں سے 415 عہدے گزشتہ سال خالی پڑے تھے۔

پریشان کن بات یہ ہے کہ ملک میں 7 ایسے ہائی کورٹس بھی ہیں جن میں فی الوقت محض ججوں کے نصف عہدے ہی پُر ہیں۔ پٹنہ ہائی کورٹ، جہاں ججوں کے 53 عہدے ہیں، میں گزشتہ سال محض 21 جج تعینات تھے، جبکہ 32 عہدے خالی پڑے تھے۔

اسی طرح چھتیس گڑھ ہائی کورٹ میں 72 میں سے 40 عہدے خالی ہیں۔ یعنی یہاں ججوں کی 55 فیصد کرسیاں خالی ہیں۔ راجستھان میں ججوں کے 50 عہدوں میں سے 27 خالی ہیں اور جودھ پور اور جے پور میں ہائی کورٹ کے بینچز محض 23 ججوں پر کام چلا رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں ججوں کے 53 عہدوں میں سے 26 خالی ہیں۔ جبکہ آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں گذشتہ سال 37 ججوں کے عہدوں میں سے 18 خالی پڑے تھے۔ یعنی ان دونوں ہائی کورٹس میں ججوں کی مجموعی تعداد میں سے نصف موجود نہیں ہیں۔

یہی صورتحال دلی ہائی کورٹ کی بھی ہے۔ حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں بُدھ کے روز پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق قومی راجدھانی کے ہائی کورٹ میں گزشتہ سال ججوں کے 60 عہدوں میں سے 29 خالی تھے۔ اُڑیسہ ہائی کورٹ میں ججوں کے 27 منظور شدہ عہدوں میں سے صرف 15 جج کام کررہے ہیں جبکہ 12 عہدے یعنی 45 فیصد خالی ہیں۔

ججوں کی تقرری کا پیچیدہ عمل

بھارت میں اعلیٰ عدلیہ بشمول سپریم کورٹ و ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کا عمل پیچیدہ ہے کیونکہ یہاں ججوں کی تقرری ایک کمیٹی جسے کولیجیم کہا جاتا ہے کی سفارش پر عمل میں لائی جاتی ہے۔

آئین کی رو سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری آئین کی دفعہ 124، 217 اور 224 کے تحت عمل میں لائی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری 1998 میں تیار کیے گئے میمورنڈم آف پروسیوجر (ایم او پی) کے تحت عمل میں لائی جاتی ہیں۔ ایسا سپریم کورٹ کی جانب سے 6 اکتوبر 1993 کو سنائے گئے ایک حکم نامے کے مطابق کیا جاتا ہے۔

میمورنڈم آف پروسیوجر (ایم او پی) کے مطابق سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کی شروعات چیف جسٹس کی جانب سے تجویز سامنے لانے پر عمل میں لائی جاتی ہے جبکہ عدالتوں میں یہی کام متعلقہ چیف جسٹس صاحبان کرتے ہیں۔

وزیر قانون روی شنکر پرشاد نے اراکین پارلیمان کو بتایا کہ ججوں کی تقرری ایگزیکیٹو اور جوڈیشری کے مشترکہ اور مخلوط طور پر عمل میں لاتی ہے۔ اُنہوں نے کہا، ’’اس ضمن میں مرکز اور ریاستوں میں مختلف آئینی اتھارٹیز کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔‘‘

انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف

نیشنل جوڈیشل ڈاٹا گریڈ کے مطابق ملک کے 25 ہائی کورٹس میں 41 لاکھ سے زائد زیر التوا مقدمات سیول ہیں جبکہ 16 لاکھ مقدمات یعنی مجموعی تعداد کا 28 فیصد فوجداری مقدمات ہیں۔

ان مقدمات میں سے اکثریت ایک سال سے زائد عرصے سے زیر التوا ہیں۔ سیول کیسز میں سے 90 فیصد سے زائد ایک سال سے زائد عرصے سے اور فوجداری مقدمات میں سے 85 فیصد ایک سال سے زائد عرصے سے زیر التوا ہیں۔

مجموعی طور پر 58 فیصد مقدمات تین سال سے زائد عرصے سے زیر التوا ہیں جبکہ 20 فیصد مقدمات دس سال سے زائد عرصے سے التوا میں ہیں۔

مزید پڑھیں:

مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انل دیشمکھ سے استعفیٰ کا مطالبہ

12.5 لاکھ مقدمات گزشتہ دس سال سے زائد عرصے سے التوا میں ہیں۔ 1.51 مقدمات گزشتہ بیس سال سے التوا میں ہیں اور تقریباً 92 ہزار مقدمات گزشتہ تیس سال سے زاید عرصے سے التوا میں ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details