حیدرآباد: تین گنبدوں والی قدیم مسجد شہنشاہ بابرکے دور میں اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے 1528ء میں تعمیر کرائی تھی۔ 27مارچ 1932ء کو گئو کشی کے نام پر ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو نشانہ بناکر پہلی مرتبہ ہنگامہ برپا کیا تھا اور پھر چھ دسمبر 1992 کو کارسیوکوں نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔ تبھی سے ہر برس 6 دسمبر کو رام جنم بھومی کی حامی تنظیمیں 'شوریہ دیوس' اور مسلم تنظیمیں 'یوم سیاہ' کے طور پر مناتے آرہے ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں 31 سال قبل 6 دسمبر 1992 کو تاریخی بابری مسجد کو شر پسندوں نے منہدم کر دیا تھا اور سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو ایودھیا میں 1949 میں مسجد میں مورتیاں رکھے جانے اور مسجد کے انہدام کو غیر قانونی فعل قرار دیتے ہوئے اپنے حتمی فیصلے میں رام مندر کی تعمیر کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی سات ججوں کی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع اراضی کو ہندو فریق رام للا کے حوالے کرنے کا فیصلہ جبکہ مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا حکومت کو حکم دیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد میں مورتیاں رکھے جانے اور مسجد کے انہدام کو غیر قانونی فعل قرار دیے جانے کے باوجود بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بی جے پی کے رہنما اور کارسیوکوں کو سی بی آئی کی عدالت نے بری کردیا، اس معاملے میں ملزم ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمان کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔
واضح رہے کہ ممبئی فسادات کی تحقیقات کرنے والے بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس بی این سری کرشنا کمیشن نے بھی مسجد میں 1949 میں مورتیاں رکھنا اور 1992 میں مسجد کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بی جے پی رہنما ایل کے اڈوانی کی 'رتھ یاترا' کو بھی مسجد کے انہدام کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
دراصل 1992 میں مسجد منہدم ہونے کے بعد ملک بھر میں تشدد برپا ہوگیا تھا۔ ملک کے تجارتی مرکز ممبئی میں بڑے پیمانے پر فساد پھوٹ پڑا تھا۔ شہر میں دسمبر 1992 اور جنوری 1993 میں ہوئے دو دور کے فسادات کی تحقیقات کے لیے حکومت نے بامبے ہائی کورٹ کے سِٹنگ جج جسٹس بی این سری کرشنا کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دی جس نے پانچ سال بعد ایک رپورٹ پیش کی تھی۔
کمیشن کی سفارشات کے باوجود قصورواروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔جسٹس سری کرشنا نے اپنی رپورٹ میں بابری مسجد کے انہدام اور رام جنم بھومی کے لیے شروع کی جانے تحریک کو ہی بنیاد قراردیا تھا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے ذریعہ 1949 میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھنے اور مسجد کے انہدام کو غیر قانونی قرار دینے کو تاریخی فیصلہ بتایا ہے۔
اس کمیشن کی کارروائی کی پہلے دن سے رپورٹنگ کرنے والے اور رپورٹ کے اردو مترجم معروف صحافی جاوید جمال الدین نے تھا کہا کہ سری کرشنا کمیشن نے واضح کر دیا تھا کہ 1980کے عشرہ میں رام مندر کی تحریک شروع کی گئی اور ایک بار پھر ہندو وادی (ہندوﺅں کی فرقہ پرست جماعتوں، تنظیموں)نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مجوزہ رام مندر کی تعمیر کرنے کی مہم شروع کردی۔
ان تنظیموں کا دعویٰ تھا کہ یہ بھگوان شری رام کی جائے پیدائش ہے۔ دوسری جانب ظاہر سی بات تھی کہ مسلمان ایک انچ زمین دینا نہیں چاہتے تھے۔جاوید جمال الدین نے مزید کہا کہ 'رپورٹ کے مطابق اس تنازع نے اس وقت سنگین ر خ اختیار کرلیا جب عدلیہ کی جانب سے مقدمہ میں کافی تاخیر ہوگئی اور سیاسی مفاد کے لیے اس معاملہ کو ایک نیا رخ 80 کی دہائی میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے دیا اور اس کے سربراہ ایل کے اڈوانی نے رام جنم بھومی۔بابری مسجد تنازع پر ہندوﺅں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے رتھ یاترا نکالی۔ اس دوران جگہ جگہ فسادات ہوئے تھے۔ آخر انہیں بہار میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن تب تک رام مندر کی مہم تیز ہوچکی تھی۔
جاوید جمال الدین نے یہ بھی کہا کہ جسٹس سری کرشنا نے رپورٹ میں تاریخی حوالے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک سے برطانوی سامراج کو باہر نکالنے کے لیے ہندوﺅں اور مسلمانوں نے متحد ہوکر آپسی ملنساری کے ساتھ جدوجہد کی تھی۔ اس اتحاد و اتفاق کو محمدعلی جناح کے 'دو قومی نظریہ' نے تباہ و برباد کردیا۔ جس کے نتیجہ میں سیاسی طور پر ملک تقسیم ہوگیا اور سرحد کے دونوں جانب لاکھوں معصوم اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ دیگر فرقے کی اکثریت اور اثر و رسوخ رکھنے والے علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے ملک کی آزادی اور اس بھارتی آئین کو تسلیم کرلیا تھا جس نے اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ رعایتیں بھی دی تھیں۔
ایک وقفہ کے ساتھ اقلیتی فرقہ کو دیئے جانے والے خصوصی اختیارات نے ان کی نفسیات پر گہرا اثر کرنا شروع کیا۔ ہندوؤں میں یہ خوف پایا جانے لگا کہ جلد ہی وہ اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اس سوچ نے صورت حال کو کافی بگاڑ دیا اور 'ہم اور وہ' کی نفسیات پنپنے لگی۔ اس کا سیاسی فائدہ مفاد پرستوں نے اٹھایا اور ہندوﺅں کے ایک طبقہ نے متعدد مساجد کو آزاد کرانے کے لیے مہم شروع کردی، جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ مسلم دور حکومت میں انہیں مندر سے ہی مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جانے لگی تھی اور سنہ 1949 سے پھر ایک بار ہندو وادی (ہندوﺅں کی فرقہ پرست جماعتوں، تنظیموں)نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مجوزہ رام مندر کی تعمیر کرنے کی مہم شروع کردی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ بھگوان شری رام کی جائے پیدائش ہے۔
جاوید جمال الدین نے مزید کہا کہ کمیشن نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ان تحریکوں کی وجہ سے ملک کے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونے لگا تھا جبکہ تحریک کے رہنماء اشتعال انگیزی سے باز نہیں آرہے تھے اور انہی چیزوں کی وجہ سے دونوں فرقوں کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی جس کا ملک کی ہم آہنگی اور بھائی چارے پر کافی بُرا اثر ہوا۔ ان زخموں کو بھرنے کے لیے ایک عرصہ درکار ہوگا۔
معروف صحافی کا کہنا ہے کہ '6 دسمبر 1992کے بعد میرے جیسے ہزاروں افراد عدم تحفظ کا شکار ہوگئے تھے لیکن رپورٹ منظر عام آنے پر اس ملک کے آئین، سیکولرازم اور جمہوریت پر اعتماد بحال ہوا ہے لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سری کرشنا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی ہیں ان میں سے صرف محکمہ پولیس کو بہتر کرنے اور جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا جبکہ قصورواروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی اور سینکڑوں متاثرین انصاف سے محروم ہیں جوکہ فسادیوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے ظلم وستم کا شکار بنے تھے۔ ایسے افراد کی طویل فہرست ہے اور یہ لوگ انصاف کے منتظر ہیں۔