اتر پردیش کے تاریخی شہر ایودھیا میں اِس وقت رام مندر کی ترتعمیر جاری ہے۔ عین اسی جگہ پر تیس سال قبل ایک عالیشان مسجد کھڑی تھی جس کے بارے میں ہندوؤں کا دعوی تھا کہ وہ بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے جہاں شہنشاہ بابر کے دور اقتدار میں مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ مسجد پر عدالتی تنازعے کے بیچ 6 دسمر 1992 کو ایک ہجوم نے اس مسجد کے میناروں پر چڑھ کر اسے شہید کردیا۔ یہ دل سوز واقعہ آزادی کے بعد ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم باب بن گیا جس نے ملک کی سیاست کا دھارا ہی بدل دیا۔
بابری مسجد کا احاطہ مکمل طور رام مندر کی ملکیت میں دینے کا فیصلہ نو نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے صادر کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے سامنے سبھی نے سرتسلیم خم کیا ۔ سپریم کورٹ نے مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا کی مضافات میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کاحکم دیا، حالانکہ مسلمانوں نے مسجد کے لئے زمین لینے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ مرکزی بی جے پی حکومت نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو اپنی کامیابی قرار دیا اور پارلیمانی و اسمبلی انتخابات میں اس موضوع کو اپنا ہتھار بنا کر ہندو ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی پوری کوشش کی اور بڑی حد تک اس میں کامیابی بھی ملی ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک کی مختلف ریاستوں میں جاری ضمنی و بلدیاتی انتخابات میں بھی بابری مسجد کو موضوع بحث بنایا گیا اور جلد از جلد رام مندر کی تعمیر کی یقین دہانی کرائی گئی۔ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2024 عام انتخابات سے قبل بی جے پی رام مندر کی تعمیر کو یقینی بنا سکتی ہے تاکہ اسے ووٹ بٹورنے کیلئے استعمال کیا جاسکے۔
تین گنبدوں والی یہ قدیم مسجد شہنشاہ بابرکے دور میں اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے 1528ء میں تعمیر کرائی تھی۔ 27مارچ 1932ء کو گئو کشی کے نام پر ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو نشانہ بناکر پہلی مرتبہ ہنگامہ برپا کیا تھا اور مسجد میں گھس کر ان بلوائیوں نے توڑ پھوڑ کی تھی۔ جس کے بعد کئی دہائیوں تک قانونی پیچیدگیوں اور زیرالتوا ثبوتوں کی وجہ سے یہ معاملہ عدالتوں میں زیر بحث رہا۔ اس دوران بابری مسجد کئی اہم واقعات کی گواہ رہی جبکہ چھ دسمبر 1992 کا وہ دن تھا، جس دن تاریخی بابری مسجد کو کارسیوکوں نے منہدم کردیا تھا۔ تبھی سے ہر برس 6 دسمبر کو رام جنم بھومی کی حامی تنظیمیں ’شوریہ دیوس’ اور مسلم تنظیمیں ’یوم سیاہ‘ کے طور پر مناتے آرہے ہیں۔