گوہاٹی ہائی کورٹ نے اسپیشل میرج ایکٹ معاملے کے تحت ایک دلچسپ فیصلے میں کہا کہ اسپیشل میرج ایکٹ 1954 ایک مسلمان مرد کی ہندو خاتون کے ساتھ دوسری شادی کو تحفظ فراہم نہیں کرتا ہے اور ایسے میں یہ شادی باطل ہوجائے گی۔
12 سالہ لڑکے کی ماں اور سہاب الدین احمد کی دوسری بیوی دیپامنی کلیتا نے اس سے قبل عدالت میں ایک رٹ دائر کی تھی، جب اتھارٹی نے اس کی پنشن اور دیگر پنشنری فوائد کے دعوے کو مسترد کردیا تھا۔ جولائی 2017 میں ایک سڑک حادثے میں اس کے شوہر کی موت واقع ہوگئی تھی۔
آرٹیکل 226 کے تحت 2019 میں رٹ پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ احمد اپنی موت کے وقت کامروپ (دیہی) ضلع میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں 'لاٹ منڈل' کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
گوہاٹی ہائی کورٹ کے جج جسٹس کلیان رائے سورنہ نے کہا کہ خصوصی شادی ایکٹ (special marriage act ) 1954 کی دفعہ 4 یہ بتاتی ہے کہ خصوصی شادی کی شرائط میں یہ ہے کہ کسی بھی فریق کا شریک حیات پہلے سے نہیں ہونا چاہئے۔
کورٹ نے کہا کہ ''یہ تنازع میں نہیں ہے کہ درخواست گزار اور مرحوم سہاب الدین احمد کے درمیان شادی کی تاریخ یا بعد میں ایک شریک حیات تھی۔ کوئی دستاویز ایسا نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی بیوی کے ساتھ درخواست گزار کے شوہر کی پہلے کی شادی منسوخ کردی گئی ہے۔''
سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جج نے کہا کہ "محمڈن قانون (Mohammedan law) کے اصولوں کے تحت ایک مسلمان مرد کی غیر اہل کتاب کے ساتھ شادی درست نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک اریگولر میرج ہے۔"
عدالت نے کہا کہ محمڈن لاء کے تیسرے سیکشن کے مطابق شادی کا تعلق ہر ایسے مسلمان سے ہے، جس نے شادی کا معاہدہ کیا ہو۔