نئی دہلی: ٹھیک 22 سال پہلے آج کے دن امریکہ پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا۔ اس حملہ میں 3 ہزار سے زیادہ لوگ بے وقت ہلاک ہو گئے تھے۔ اس دن یعنی 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں طیاروں کو ہائی جیک کرکے دہشت گردانہ حملے کیے گئے تھے۔ اس درد کو آج تک بھی کوئی نہیں بھولا۔ اس سے پہلے امریکہ پر ایسا کوئی دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوا تھا۔ یہ حملہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے تھے۔ یہ حملہ گیارہ ستمبر 2001 کو پرائیڈ آف نیو یارک کے نام سے معروف ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا گیا تھا۔ نیویارک میں کیا جانے والا یہ حملہ امریکی سرزمین پر تاریخ کا بدترین حملہ تھا جس میں تقریباً تین ہزار لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملہ میں مسافر بردار طیاروں کو اغواء کرکے نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن میں واقع ملٹری سینٹر پینٹاگون سے ٹکرا دیا گیا تھا جس کے لیے القاعدہ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:
اس عسکریت پسند تنظیم نے ذمہ داری قبول کی تھی
اطلاعات کے مطابق عسکریت پسندتنظیم القاعدہ نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس عسکریت پسند تنظیم کے خوفناک عسکریت پسندوں نے بربریت کو انجام دیا۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ القاعدہ کے عسکریت پسندوں نے سب سے پہلے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز سے دو ہوائی جہازوں کو گرایا۔ جس کے بعد امریکی وزارت دفاع کے پینٹاگون پر طیارے گر کر تباہ ہو گئے۔ اسی دوران چوتھے طیارے کو گرانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ چوتھا طیارہ پنسلوانیا کے ایک کھیت میں گر کر تباہ ہوا۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کے اہم حقائق جانیں
القاعدہ عسکریت پسند گروپ کے سربراہ اسامہ بن لادن نے اس حملہ کے لیے فنڈز فراہم کیے تھے۔ ساتھ ہی اس دہشت گردانہ حملہ کی پوری منصوبہ بندی بھی اسی نے کی تھی۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ اسامہ بن لادن سعودی عرب کا رہائشی تھا۔
اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کو امریکی انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) نے اطلاع دی تھی کہ بن لادن دہشت گردانہ حملہ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ خفیہ ایجنسی نے یہ بھی بتایا کہ اسامہ بن لادن طیاروں کو ہائی جیک بھی کر سکتا ہے۔
معلومات کے مطابق امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر اس سے قبل بھی دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔ فروری 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے قریب کھڑی ایک گاڑی میں زبردست دھماکہ ہوا تھا جس میں تقریباً 6 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی سینکڑوں افراد شدید زخمی ہو گئے۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ اتنا شدید تھا کہ وہاں لگ بھگ نو دن تک آگ جلتی رہی۔ ذرائع سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق 11 ستمبر کو لگی آگ 19 ستمبر 2001 کو بجھا دی گئی۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں لگنے والی آگ کو بجھانے میں تقریباً 343 فائر ڈپارٹمنٹ کے اہلکار بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ امریکہ پر دہشت گردانہ حملہ کے بعد 11 دسمبر 2001 کو دنیا کے 48 ممالک نے ایک تعزیتی اجلاس کا اہتمام کیا تھا۔ اس تعزیتی اجلاس میں متاثرین کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ ساتھ ہی اس حملہ میں 77 ممالک کے شہری بھی مارے گئے۔
11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کے بعد جمع ہونے والے ملبے کو صاف کرنے میں 9 ماہ سے زیادہ کا وقت لگا۔ آپ کو بتا دیں کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبہ سے تقریباً 18 لاکھ ٹن ملبہ برآمد ہوا ہے۔
نائن الیون حملوں کے اکیس سال مکمل، امریکہ کی شکست یا جیت
یہ وہی وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر تھا جسے اس وقت امریکہ کی معاشی قوت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور پینٹاگون کو امریکہ کا سب سے بڑا عسکری مرکز تصور کیا جاتا تھا۔ پہلے اغوا شدہ طیارہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرایا جس میں سب سے زیادہ 2753 اموات ہوئیں جب کہ اس حملہ میں دس ہزار لوگ زخمی بھی ہوئے تھے۔ وہیں دوسرا اغوا کردہ امریکن ایئر لائن کا طیارہ 77 پنٹاگان کی عمارت سے ٹکرایا۔ جس کے نتیجہ میں 184 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ تیسرا اغوا کردہ یونائٹیڈ ایئر لائن طیارہ 93 پنیسلوینیا کے شہر شینکزویہ کے قریب بے قابو ہوکر کھیت میں گرکر تباہ ہوگیا جس کے نتیجہ میں 40 مسافرین ہلاک ہوگئے تھے۔
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ان اغوا کردہ طیارہ میں مسافرین اور عملے کی مزاحمت کے بعد اغوا کاروں نے طیارے کو ہدف پر لے جانے کے بجائے کھیت میں گراکر تباہ کر دیا۔ ان تینوں حملوں میں بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں نے عوامی جذبات بھڑکا دیے اور امریکی قوم صدمے کا شکار ہوگئی۔ دنیا کی سب سے بڑی قوت اور سپر پاور ملک امریکہ کے لیے یہ حملہ کسی سیاہ دن اور ان کی تذلیل سے کم نا تھا۔
اس حملے کے بعد امریکہ نے مایوسی اور دکھ کے ساتھ رد عمل کا اظہار کیا اور تمام عالمی برادری کی ہمدردی سمیٹ لی جس نے بھرپور غصے کا مظاہرہ اور بدلا لینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ جس کے بعد ہی اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے عسکریت پسند تنظیم القاعدہ کے خلاف War on Terror یعنی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا اعلان کر دیا۔ ان حملوں کے فوری بعد امریکہ نے افغانستان میں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کردیا جس نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی تھی لیکن القاعدہ سربراہ کے خاتمہ کے لیے واشنگٹن کو 10 سال لگ گئے۔ امریکہ پولیس ایکشن یا اسپیشل فورسز کے ساتھ کارروائی کرتے ہوئے دس سال بعد یعنی 2011 میں پاکستان میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ہدف بنا کر ہلاک کردیا۔
یہ بھی پڑھیں:
ایف بی آئی نے 9/11 حملوں کا پہلا دستاویز جاری کیا
اِس کے بعد بھی امریکی افواج افغانستان میں موجود رہی لیکن انتیس فروری 20ء میں سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدہ پر دستخط کرکے افغان سے فوج کے انخلا کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی لیکن یہ عمل اُس وقت مکمل ہوا جب موجودہ امریکی صدر جو بائیڈین نے اسی معاہدہ کے تحت اکتیس اگست 2021 کو افغانستان سے اپنی افواج واپس بلالیں، جس کے ساتھ ہی امریکہ اور طالبان کی بیس سالہ جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔
امریکہ نے وار آن ٹیرر یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ہی صورت میں 2003 میں اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے عراق پر حملہ کر دیا۔ لیکن اس وقت امریکہ اس حملہ کا کوئی قانونی جواز بھی موجود نہیں رہا تھا۔ صدام حسین کے نائن الیون کے حملہ آوروں سے کسی قسم کے روابط اور عراقی حکمران کی طرف سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار سازی کے دعوے فسق اور جھوٹے تھے۔ برلن میں قائم ایک تھنک ٹینک ایس ڈبلیو پی سے منسلک ایک ماہر ژوہانس تھم کے بقول، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً نو لاکھ تیس ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور یہ تمام افراد براہ راست جنگ میں مارے گئے۔ ان میں سے قریب چار لاکھ عام شہری تھے۔
امریکہ کی اس جنگ کے سبب ہونے والے اخراجات ایک تخمینے کے مطابق صرف امریکہ کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ماہر بیرنڈ گرائنر کا کہنا ہے کہ پوری دنیا پر اس جنگ کے اثرات سے قطع نظر امریکہ کو عراق اور افغانستان میں جنگ سے بہت بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہیں امریکی مؤرخ اسٹیفن ورتھ ہائم کہتے ہیں امریکہ اپنی اتنی بڑی آبادی اور وسیع وسائل کو نائن الیون کے حملوں کے تخریبی رد عمل کے بجائے متعدد تعمیری کاموں پر صرف کر سکتا تھا۔