علیگڑھ:قصیدہ ہزارہا ان موضوعات کی شاعری ہے جو آج بھی ہمارے زندگی سے براہِ راست تعلق رکھتے ہیں، قصیدہ ایک جسم ہے ۔اس میں آپ جو روح ڈالنا چاہتے ہیں وہ اسی میں ڈھل جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار معروف ادیب انسٹی ٹیوٹ آف پرشین ریسرچ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بانی ڈائریکٹر پروفیسر آذرمی دخت صفوی نے کیا وہ پرشین انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام قومی سیمینار ”قصیدہ فارسی: روایت و جہات“ سے کلیدی خطبہ پیش کررہی تھیں۔
انھوں نے مذید کہا کہ قصیدہ کا نام سنتے ہی ذہن میں آتا ہے کہ کسی کی تعریف یا کہا جائے تو اسکی خوشامد جبکہ قصیدہ اس کے علاوہ بہت کچھ ہے۔ قصیدہ کی شروعات ضرورت مدح کیلئے ہوئی لیکن اس قصیدہ سے شاعروں نے ہزاروں کام کئے ہیں۔ انھوں نے شیخ سعدی کے قصیدوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنے قصیدوں میں بادشاہوں کو بتایا کہ یہ کام کرو یہ کام نہ کرو یہ مناسب ہے یہ غیر مناسب ہے۔ اپنی رعایا کا خیال رکھو، انھوں نے انسان کو اخلاقیات سے روبرو کرایا بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انکے قصیدہ فلسفہ اور اخلاقیات کا ایک بھر پور سبق ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تاریخی قصیدہ بھی اپنی منفرد شناخت رکھتے ہے۔انھوں نے غزنوی دور میں آئے فرخی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ہندوستان کے مقامات راستوں اور روایات کے تعلق سے اپنے قصیدوں میں مفصل بیان کیا ہے جو ہمارے لئے آج بھی اس دور کی سیاسی معاشی اور تاریخی چیزوں کو سمجھنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔