شاعر راشد انور راشد کے انتقال پر اے ایم یو میں تعزیتی نشست علی گڑھ:ممتاز شاعر، معروف ادیب اور نقاد، پروفیسر راشد انور راشد کا طویل علالت کی وجہ سے ممبئی کے ایک اسپتال میں علاج کے دوران 7 اپریل کو انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور چار بچے ہیں۔ پروفیسر راشد انور راشد نے جے این یو سے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تھی، جب کہ بی اے رانچی یونیورسٹی، رانچی سے کیا تھا۔ انہوں نے 26 سے زائد کتابیں شائع کیں۔ انہیں کئی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں دہلی اردو اکیڈمی ایوارڈ، یوپی اردو اکیڈمی ایوارڈ، بہار اردو اکیڈمی ایوارڈ، مغربی بنگال اردو اکادمی ایوارڈ، دارجلنگ کلا پریشد ایوارڈ اور صدف انٹرنیشنل ایوارڈ شامل ہیں۔
راشد انور راشد کے سانحہ ارتحال پر شعبہ اردو میں آج ایک تعزیتی نشست منعقد کی گئی تھی جس میں صدر شعبہ اردو و ڈائریکٹر اردو اکیڈمی پروفیسر قمر الہدی فریدی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر راشد انور راشد بہت حوصلہ مند انسان تھے۔ دوران علاج اسپتال میں بھی وہ لکھتے پڑھتے رہے اور اس زمانہ میں جب انسان مستقبل کے بارے میں بہت کچھ سوچتا رہتا ہے.
وہ مثبت توانائی کے ساتھ کام کرتے رہے اور انہوں نے دو کتابیں مکمل کر لیں۔ وہ ایک خوش فکر شاعر، ناقد اور ادیب اور نہایت دل نواز شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی موت سے ان کے احباب ہی نہیں، پوری ادبی دنیا سوگوار ہے۔ افسوس کہ ہم نے اپنے پیارے ساتھی اور شعبہ اردو اے ایم یو نے ایک لائق استاد کو کھو دیا۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور احباب بالخصوص اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
ممتاز ناقد پروفیسر شافع قدوائی نے ان کی ادبی خصوصیات اور امتیازات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر راشد نے حالی، مرزا فرحت اللہ بیگ اور عبد الرزاق ملیح آبادی کی روایت کو زندہ کیا اور پروفیسر قاضی عبد الستار اور پروفیسر طارق چھتاری کی سوانح لکھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے موضوعاتی نظمیں لکھیں۔ تقریبا 26 کتابیں ہیں لیکن ان کو لگتا تھا کہ شاعری ان کا اصل میدان ہے اور اس میں اپنی ہنر مندی کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔
پروفیسر ٓاذرمی دخت صفوی نے کہا کہ کچھ لوگ طبعی طور پر بہت فعال ہوتے ہیں، ڈاکٹر راشد انہی میں سے ایک تھے۔ ایسا فعال آدمی دوسروں کے لیے ہمیشہ محرک بھی بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشکلات پر قابو پانے کا صرف یہی ایک حل ہے کہ آدمی خود کو لکھنے پڑھنے میں منہمک رکھے اور یہ آسان کام نہیں ہے لیکن ڈاکٹر راشد نے یہ مشکل کام بھی کیا کہ دوران علاج وہ تصنیف و تالیف میں غرق رہے۔
پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے کہا کہ راشد انور راشد تدریسی اور غیر تدریسی ذمہ داریاں بہت خوش اسلوبی سے انجام دیا کرتے تھے۔ ان میں ایک خاص ہنر یہ بھی تھا کہ جب انہیں کوئی نیا مضمون پڑھانے کے لیے دیا جاتا تو بہت جلد اس میں مہارت حاصل کر لیتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ طلبہ کی رہنمائی اور سہولت کے لیے اس سلسلہ کی کوئی کتاب بھی تصنیف کر دیں۔ وہ شاگردوں کی ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی مسائل میں بھی دلچسپی لیتے تھے اور حتی الامکان ان کو حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
پروفیسر طارق چھتاری نے اپنی گفتگو میں کہا کہ راشد انور راشد میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ ہر صنف پر عمدہ اسلوب میں لکھ لیتے تھے۔ جس موضوع کو چھوتے تھے اس کا حق ادا کر دیتے تھے۔ ان کے انتقال سے لکھنے پڑھنے والوں کا، ادب کے طلباء کا اور شعبہ اردو کا نقصان ہوا ہے۔سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے کہا کہ وہ ہمہ جہت فنکار تھے، لکھنے پڑھنے کا ہنر جانتے تھے۔ انتہائی حساس انسان تھے، ان کی حساسیت کے حوالہ سے کئی واقعات کا میں خود گواہ ہوں۔وہ دنیا کا مطالعہ بہت غور سے کرتے تھے اور ان کا اظہار بھی کرتے تھے۔
پروفیسر سید سراج الدین اجملی نے تعزیتی کلمات پیش کرتے ہوئے دوران بیماری ان کے عزم و حوصلہ اور ہمت و استقلال کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ راشد انور راشد اخیر وقت تک ذہنی طور پر بھی اور ادبی طور پر بھی فعال رہے۔ ان کے انتقال سے جو خسارہ ہوا ہے، اس کا تصور کرکے ہی دل مغموم اور رنجیدہ ہو جاتا ہے۔
اے ایم یو ترجمان پروفیسر عاصم صدیقی نے ایڈورڈ سعید اور ڈی ایچ لارنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان بڑے ادیبوں اور دانشوروں نے بھی علاج کے دوران یہ سوچ کر کتابیں تصنیف کیں کہ جو دنیا میں نے دیکھی ہے اس کو اگر میں نہیں لکھوں گا تو وہ میرے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی۔ ڈاکٹر راشد انور راشد بھی ایک بڑے ذہن کے انسان تھے اور شاید یہی وجہ رہی کہ انہوں نے بھی دوران علاج تصنیف و تالیف سے رشتہ قائم رکھا۔
یہ بھی پڑھیں:علی گڑھ: آلودگی پر قابو پانے کے لیے جلد اے ایم یو میں قایم ہوگا ریجنل سینٹر - Aligarh Muslim University
پروفیسر آفتاب عالم نے زمانہ طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر راشد انور راشد ہمارے ہاسٹل کے ساتھی تھے۔ وہ ادب و شاعری کے تئیں ہمیشہ سنجیدہ رہے۔ انہوں نے بتایا کہ راشد انور کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ جے این یو کے بہترین کھلاڑیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ تعزیتی نشست میں شعبہ کے موجودہ و سابق اساتذہ کے علاوہ مختلف شعبوں کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالر کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔