ممبئی:ساحر لدھیانوی ہندی فلموں کے ایسے پہلے نغمہ نگار تھے جن کا نام ریڈیو سے نشر ہونے والے فرمائشی نغمہ میں دیا گیا۔ ساحر سے پہلے کسی نغمہ نگار کو ریڈیو سے نشر ہونے والے فرمائشی نغمہ میں اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ساحر نے اس کے لئے کافی جدوجہد کی جس کے بعد ریڈیو پر نشر نغموں میں گلوکار اور موسیقار کے ساتھ ساتھ نغمہ نگار کا نام بھی دیا جانے لگا، اس کے علاوہ وہ پہلے نغمہ نگار تھے جنہوں نے نغمہ نگاروں کے لئے رائلٹی کے مطالبہ کو منوایا۔
آٹھ مارچ 1921ء کو پنجاب کے لدھیانہ شہر میں ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہونے والے ساحر کی زندگی کافی جدوجہد میں گزری۔ ساحر نے اپنی میٹرک تک کی تعلیم لدھیانہ کے خالصہ اسکول سے مکمل کی۔ اس کے بعد وہ لاہور چلے آئے جہاں انہوں نے اپنی مزید تعلیم گورنمنٹ کالج سے مکمل کی۔ کالج کے پروگراموں میں وہ اپنی غزلیں اور نظمیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے جس سے انہیں کافی شہرت حاصل ہوئی۔
مشہور پنجابی مصنفہ امرتا پرتم کالج میں ساحر کے ساتھ ہی پڑھتی تھی جو ان کی غزلوں اور نظموں سے کافی متاثر ہوئیں اور ان سے محبت کرنے لگیں، کچھ عرصے کے بعد ہی ساحر کالج سے نکال دیئے گئے۔ اس کی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ امرتا پرتم کے والد کو ان کے اور ساحر کے تعلقات پر اعتراض تھا کیونکہ دونوں مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان دنوں ساحر کی مالی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔
ساحر 1943ء میں کالج سے نکال دیئے جانے کے بعد لاہور چلے گئے، جہاں انہوں نے اپنا پہلا شعری مجموعہ تلخیاں مرتب کیا۔ تقریبا دو برسوں کی انتھک کوششوں کے بعد آخر کار ان کی محنت رنگ لائی اور تلخیاں کی اشاعت ہوئی۔ اس درمیان ساحر ترقی پسند تحریک سے منسلک ہوگئے اور انہوں نے اداب لطیف شاہکار اور سویرا جیسی کئی مقبول اردو رسائل نکالے لیکن سویرا میں انقلابی خیالات کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے ان کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا۔ اس کے بعد وہ 1950ء میں ممبئی آگئے۔
ساحر نے 1950 میں ریلیز ہوئی فلم آزادی کی راہ پر میں اپنا پہلا نغمہ بدل رہی ہے زندگی لکھا لیکن فلم کامیاب نہیں ہوسکی۔ سال 1951 میں ایس ڈی برمن کی دھم پر فلم نوجوان میں لکھے اپنے نغمے ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں کے بعد وہ نغمہ نگار کی حیثیت سے اپنی کچھ حد اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے۔