گیا: خانقاہوں سے اردو ادب اور شاعری کو بہت فروغ ملا اور یہاں سے اس زبان کو کافی مضبوطی ملی۔ صوفی کلام جب کوئی پڑھتا ہے تو اسے سن کر ایک الگ کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ کلام عشق میں جھومنے پر مجبور کرتے ہیں۔ امیر خسرو سے لیکر کئی پائے کے بزرگ جو ایک بڑے شاعر بھی تھے۔ آج بھی خانقاہوں میں ادب اور ثقافت کے ساتھ اشعار و کلام کی حفاظت ہوتی ہے اور موجودہ وقت میں کئی خانقاہ ہیں جن کے سجادہ نشیں یا اس خانقاہ کا کوئی پیر و مرشد شاعر ضرور ہے۔ انہیں میں ضلع گیا کے بیتھو شریف میں واقع خانقاہ کریمیہ درویشیہ کے موجودہ سجادہ نشیں حضرت سید شاہ غفران اشرفی ہیں۔
غفران اشرفی نے یوں تو کئی غزلیں اور نظمیں لکھی ہیں لیکن ان کا زیادہ کلام عظمت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی کہ نعت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی ہے۔ صوفیانہ کلام و شاعری ان کی پہچان ہے۔ حالانکہ اُنہوں نے حالات حاضرہ پر بھی بڑے بے باکی سے قلم اٹھایا ہے۔
غفران اشرفی ضلع کے وہ شاعر ہیں جو اپنی خدمات اور نئی نسل کے شاعروں کو غزل و نظم لکھنے کی باریکیوں سے واقف کراتے ہیں اور انکی تربیت و رہنمائی کی وجہ سے استاد الشعرا کا درجہ رکھتے ہیں۔ غفران اشرفی کا تعلق ضلع ہیڈ کوارٹر سے متصل بیتھو شریف سے ہے۔ یہاں بیتھو میں مگدھ کے روحانی تاجدار حضرت سید شاہ مخدوم درویش اشرف کا آستانہ ہے جہاں ہر دن سینکڑوں مصیبت زدہ پریشان حال اپنی آرزو منتوں مرادوں کو لیکر حاضری دیتے ہیں۔
یہیں بیتھو شریف میں ایک خانقاہ حضرت سید شاہ کریم رضا علیہ الرحمہ کی قائم کردہ خانقاہ کریميه درویشیہ ہے اور اسی خانقاہ کے سجادہ نشیں حضرت سید شاہ غفران اشرفی ہیں جو ایک بڑے شاعر بھی ہیں۔ ای ٹی وی بھارت اُردو نے اُن سے خصوصی گفتگو کی ہے۔ غفران اشرفی نے شاعری کے سفر پر کہا کہ یہ تو خاندانی وراثت ہے۔
سید شاہ غلام حسن صاحب رحمت اللہ علیہ خاندان میں ایسے بزرگ تھے جن کا فارسی کا دیوان 1284 ہجری میں برقی پریس کانپور سے شائع ہوا۔ میں ان کی پانچویں پیڑھی ہوں، تو یہ میرے خون کے اندر شامل ہے۔ میں نے پہلا جو شعر کہا تھا وہ یہ تھا کہ' علی مشکل کشا کا نام لے کر نکل آیا ہوں، بحر بے کراں سے۔ آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں میری شاعری کی شروعات اور بنیاد کس طرح ہوگی۔